حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت امام رضا (ع) کی ولادت کی شب ہندوستان میں نمائندگی آیت اللہ مکارم شیرازی کے توسط سے ہندوستان میں آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی کی علمی زندگی اور عملی سیرت سے متعلق بین الاقوامی ویبنار کا انعقاد کیا گیا۔
اس تقریب میں ہندوستان میں مقام معظم رہبری کے نمائندہ حجت الاسلام و المسلمین مہدی مہدوی پور، بمبئی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خانہ فرہنگ و ثقافت کے سربراہ جناب آشوری، قم سے تشریف لائے جناب حجت الاسلام و المسلمین حبیبی تبار، حضرت آیت اللہ سیستانی کے وکیل مطلق اور ممبئی جامع مسجد خوجہ شیعہ اثنا عشری کے امام جمعہ جناب حجت الاسلام و المسلمین سید احمد علی عابدی، لندن سے معروف خطیب حجت الاسلام و المسلمین سید علی رضا رضوی، بمبئی سے حجت الاسلام و المسلمین شوکت عباس صاحب، ہندوستان میں المصطفی یونیورسٹی کے سابقہ نمائندہ حجت الاسلام و المسلمین محمد رضا صالح، مسجد جامع شیعیان دہلی کے امام جمعہ حجت الاسلام و المسلمین سید محسن تقوی، حوزہ امام الہدی سیدہ زینب دمشق سوریہ کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین سید علی باقر عابدی، حجت الاسلام و المسلمین فیروز رضا نقوی صاحب، حجت السلام و المسلمین سید تحقیق حیدر صاحب امام جمعہ بھاونگر صوبہ گجرات ہندوستان، جمعیت علماء اثنی عشریہ کارگل کے سرپرست حجت الاسلام و المسلمین مولانا ناظر مہدی محمدی صاحب، علی پور منگلور سے حجت الاسلام و المسلمین سید محفوظ علی عابدی صاحب اور شیعہ مرجعیت سے دلچسپی رکھنے والے کئی افراد نے شرکت کی۔
اس ویبنار کے آغاز میں ہندوستان میں آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی کے نمائندہ محترم جناب سید شباب نقوی نے آٹھویں لعل ولایت و امامت(علیہ السلام) کی ولادت با سعادت کے موقع پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی قرآن مجید کے مفسر، شیعہ مرجع تقلید اور حوزہ علمیہ قم میں فقہ و اصول کے درس خارج کے جید استاد ہیں۔
آیت الله العظمی اراکی کی رحلت کے بعد سے آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کی جانب سے معرفی شدہ سات مراجع میں سے ایک ہیں۔آپ نے جوانی میں ہی کافی تعداد میں تألیفات انجام دے رکھی تھیں اور اب ۲۰۲۱ء تک ان کی ایک سو کے قریب تالیفات چھپ چکی ہیں۔ آپ اسلامی انقلاب کی فتح سے پہلے سے ہی "مکتب اسلام" نامی میگزین کے ایڈیٹر تھے۔ تفسیر نمونہ جیسی گرانقدر تفسیر قرآن انہی کی زیر قیادت ٹیم کی زحمات کا نتیجہ ہے۔ مدرسہ فقہی امام کاظم (علیہ السلام) سمیت کئی ایک مدارس دینیہ کا قیام، تحقیقی امور کے لئے مراکز جیسے شیعہ شناسی کے لئے تخصصی سینٹر کا قیام اور اسی طرح ولایت ٹی وی چینل کا قیام بھی دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی کی طرف سے انجام پایا ہے۔
اس ویبنار میں خطاب کے دوران بمبئی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خانہ فرہنگ و ثقافت کے سربراہ جناب آشوری نے کہا: حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی نے 24 سال کی عمر میں نجف کے دو بزرگ علماء سے اجتہاد کا اجازہ حاصل کیا اور پھر شہر مقدس قم میں آئے اور وہیں سکونت اختیار کر لی۔ 65 سال سے زیادہ عرصہ سے حوزہ علمیہ قم ان کے دروس سے مستفید ہو رہا ہے اور بہت سارے طلباء نے ان کے دروس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ اپنے نئے اور تخلیقی علمی نظریات کے ساتھ طلباء اور علماء کی تعلیم و رہنمائی کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ وہ طلباء کو اعلی حوزوی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ فقہ و اصول کے درس خارج کی تدریس کرتے ہیں۔
آقای آشوری نے اپنے بیانات کے دوران مزید کہا: حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی کی سو سے زیادہ تألیفات کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر، نہج البلاغہ کا ترجمہ، مباحث فقہ و اصول، اعتقادی، فلسفی، آثار اخلاقی اور زندگانی معصومین (علیہم السلام) پر متعدد کتابیں اور قلمی آثار موجود ہیں۔
عالم اسلام سمیت دوسرے ممالک اور دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے مفکرین اور خطباء حضرات نے امام شمس الشموس حضرت علی ابن موسی الرضا (ع) کی ولادت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی کی شخصیت کے بارے میں خطابات کئے اور ان کی مثالی تفسیر "تفسیر نمونہ" کا ذکر کرتے ہوئے اسے انتہائی باارزش تفسیر قرار دیاکہ جسے معاشرے کے تمام طبقات کے افراد کے قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے انتہائی آسان زبان میں لکھا گیا ہے۔
حجت الاسلام و المسلمین حبیبی تبار نے بھی آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی کی نمائندگی میں حضرت علی ابن موسی الرضا (ع) کی ولادت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: میں آیت اللہ مکارم کی نمائندگی کرتے ہوئے آپ کے درمیان موجود ہوں اورامید کرتا ہوں کہ اس مبارک ولادت کی شب میں اس ویبنار کا انعقاد مزید مبارک ثابت ہو گا اور بہت جلد ان شاءاللہ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ہونے والی محدودیتوں اور پریشانیوں کا خاتمہ ہو گا۔
ویبینار کے اختتام پر برصغیر میں نمائندہ مقام معظم رہبری محترم جناب حجت الاسلام والمسلمین مهدوی پور نے اپنے خطاب کے دوران کہا: اس مرجع عالیقدر نے انتہائی قیمتی اور قابل قدر قلمی آثار کو تحریر کیا ہے کہ جن میں سے ایک تفسیر نمونہ ہے۔ امید ہے کہ ان کے دوسرے علمی مکتوبات سے بھی عالم اسلام اور اسلامی معاشرہ کے محققین اور مومنین استفادہ کرتے رہیں گے۔